Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

سگریٹ نوشی سے گنجے پن کا خطرہ

سائنس دانوں نے سگریٹ نوشی کی ایک اور خرابی دریافت کی اور وہ یہ کہ سگریٹ پینے سے کچھ لوگوں کے گنجا ہو جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ وہ ایشیائی مرد جو سگریٹ نوشی نہ کرتے ہوں ، مغربی مردوں کی نسبت ان کے گنجا ہو جانے کا امکان کم ہوتا ہے لیکن یہی اگر ایشیائی مرد سگریٹ نوش ہوں تو زیادہ امکان ہے کہ وہ گنجے ہو جائیں گے۔یہ تحقیق آرکائیوز ڈرمیٹالوجی میں شائع ہوئی ہے اور اس میں اوسطاً پینسٹھ برس کی عمر کے سات سو چالیس تائیوانی مردوں نے حصہ لیا ہے۔تحقیق کاروں نے سب سے پہلے یہ معلوم کیا کہ مرد کس عمر میں گنجے ہونا شروع ہوتے ہیں۔ انہوں نے ان خدشات کو بھی مدِ نظر رکھا جو مردوں کے سر کے بال کم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی مرد روزانہ بیس سگریٹ پیئے تو اس کے گنجا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ سگریٹ نوشی سے بال پیدا کرنے والے خلیوں کو نقصان پہنتا ہے۔

پہلے ہی سگریٹ نوشی کو کئی بیماریوں کا سبب کہا جاتا ہے جن میں کینسر اور دل کے امراض شامل ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق سگریٹ پینے سے خون میں لوتھڑا بننے کا امکان بڑھ جاتا ہے جس سے ہارٹ اٹیک یا فالج ہونے سے زندگی ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

 

Read More

سگریٹ بُجھا دے زندگی

دل کا مرض، زخموں کا دیر سے ٹھیک ہونااور موت تحقیق کے مطابق یہ سب کچھ سگریٹ کا نتیجہ ہیں۔
برٹش میڈیکل جرنل میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو تمباکو نوشی نہیں کرتے اور تمباکو نوشی کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں ان میں موت کا خطرہ پندرہ فیصد زیادہ ہے۔
ایک اور تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ امریکی ریاست مونٹانہ میں سگریٹ نوشی پر پابندی کے بعد وہاں لوگوں میں دل کا دورہ پڑنے کی شرح کم ہو گئی ہے۔
اسی دوران سگریٹ نوشی کے نقصانات کے بارے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہ عادت زخموں کے ٹھیک ہونے کے عمل کو بھی سُست بنا دیتی ہے۔

ویلنگٹن سکول آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کے مطابق عمر اور سماجی پس منظر چاہے کچھ بھی ہو سگریٹ نوشی کرنے والوں میں اموات کی شرح پندرہ فیصد زیادہ ہی دیکھی گئی ہے۔

محقققین کے مطابق ’سگریٹ نوشی کے خلاف قوانین کی پابندی نہ صرف لوگوں میں اس کے خطرات کی منتقلی کو روکے گی بلکہ اس سے لوگوں میں دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خدشہ بھی کم ہو گا۔‘

اس لحاظ سے نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ میں بھی صحت عامہ کے ماہرین تمباکو نوشی پر پابندی عائد کرنے کے حق میں ہیں۔

تمباکو کے نقصان کا کیسے پتہ چلا؟

پھیپھڑوں کے کینسر اور تمباکونوشی کے درمیان تعلق معلوم کرنے والے برطانوی سائنسدان سر رچرڈ ڈول کا بانوے سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔
وہ آکسفورڈ کے جان ریڈکلف ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ سر ڈول کا شمار دنیا کے معروف ترین پروفیسروں میں ہوتا تھا۔
ان کی وجہ شہرت انیس سو پچاس میں لکھا جانے والا ان کا تحقیقی مقالہ تھا جس میں انہوں نے تمباکونوشی کو پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ بتایا۔ اس تحقیق میں آسٹن بریڈفورڈ ہل بھی ان کے ساتھ تھے۔

جامعہ آکسفورڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر جان ہڈ نے کہا ہے کہ سر رچرڈ کی تحقیق نے دنیا میں لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائیں۔

انہوں نے کہا کہ سر ڈول کی پھیپھڑوں کے کینسر اور دِل کی بیماریوں کے بارے میں تحقیق گزشتہ پچاس سال میں برطانیہ میں تمباکونوشی میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

سر رچرڈ ڈول انیس سو بارہ میں ایک ڈاکٹر کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ ریاضی کے ایک امتحان میں فیل ہونے کے بعد انہوں نے طب میں تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے انیس سو سینتیس میں سینٹ تھامس میڈیکل سکول سے طب کی ڈگری حاصل کی اور رائیل آرمی میڈیکل کور میں شامل ہو گئے۔

سر ڈول کو طبی تحقیقاتی کونسل میں پھیپھڑوں کےکینسر میں اضافے کی وجہ معلوم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

ابتداء میں ڈول کا دھیان گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کی طرف گیا لیکن پھر انہوں نے تمباکونوشی کے رجحان میں اضافے پر توجہ دینی شروع کی۔ انہوں نے چھ سو مریضوں سے سوالنامہ بھروانے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ پھیپھڑوں کی بیماری سگریٹ نوشی کی وجہ سے بڑھی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی تحقیق کا دائرہ پورے ملک تک وسیع کر دیا۔

سر رچرڈ ڈول نے شراب نوشی کے ماں کے پیٹ میں بچوں پر اثرات اور مانع حمل ادویات کے اثرات کے بارے میں بھی تحقیق کی۔

سن دو ہزار میں اگست کے مہینے میں سر رچرڈ ڈول نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں پچاس برس قبل کی گئی ان کی تحقیق درست ثابت ہوتی تھی کہ سگریٹ نوشی میں کمی کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے کینسر میں بھی کمی ہوئی ہے۔

سر رچرڈ ڈول کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔

شراب اُتنی ہی مضر جتنی سگریٹ

ایک تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر میں شراب نوشی کے نتیجے میں مرنے والے افراد کی تعداد سگریٹ نوشی یا ہائی بلڈ پریشر سے مرنے والے افراد کے برابر ہے۔
بین الاقوامی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ الکوحل کا زیادہ استعمال ساٹھ مختلف بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔
تحقیق کے دوران یہ بھی پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی4 فیصد بیماریوں کی بنیادی وجہ شراب ہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں 4.4 فیصد پیماریاں ہائی بلڈ پریشر اور 4.1 فیصد سگریٹ نوشی کی بناء پر ہوتی ہیں۔

سائنسدانوں کی اس ٹیم کے سربراہ اور سٹاک ہوم یونیورسٹی کے استاد پروفیسر رابن روم نے بی بی سی کو بتایا کہ’ ہمارے پاس جو ثبوت ہے اس سے ظاہر ہے کہ اگر شراب نوشی میں اضافہ کر دیا جائے تو الکوحل سے متعلقہ بیماریوں میں مبتلا ہونے کےامکانات میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے‘۔

اس رپورٹ میں منہ، جگر اور چھاتی کے کینسر اور دل کے امراض میں شراب کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس کے علاوہ کار حادثات، ڈوبنے کے واقعات اور زہر خورانی سے ہونے والی اموات میں الکوحل کا کردار بھی اس رپورٹ میں زیرِ بحث آیا ہے۔

برطانیہ میں تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ اگر الکوحل کی مصنوعات کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ کر دیا جائے تو اس کے استعمال کو کم کیا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کو 7 فیصد کم کیا جا سکتا ہے۔

برطانوی میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ حکومت عوامی سطح پر صحت کے معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔

برطانوی محکمہ صحت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ’ حکومت شراب تیار کرنے والے اداروں، پولیس اور صحت کی ایجنسیوں سے رابطےمیں ہے اور وہ الکوحل کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں اور مسائل پر نظر رکھے ہوئے ہے‘۔

مرغی کے انڈوں سے کینسر کا علاج

برطانیہ میں سائنسدانوں نے ایسی مرغیاں تیار کر لی ہیں جو کینسر کی ادویات میں استعمال ہونے والی پروٹین کے حامل انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اس سائنسی کامیابی کا دعویٰ اسی ریسرچ سنٹر نے کیا ہے جو اس سے پہلے کلون شدہ بھیڑ ڈولی کے ذریعے دنیا بھر میں شہرت پا چکا ہے۔
ایڈنبرا کے نزدیک واقع روسلن انسٹیوٹ کا کہنا ہے کہ ادارے میں ہونے والی ریسرچ کے نتیجے میں ایسی مرغیوں کی پانچ نسلیں تیار ہو چکی ہیں جو انڈے کی سفیدی میں ادویات میں استعمال ہونے والی کارآمد پروٹین تیار کر سکتی ہیں۔

امید ہے کہ روسلن انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں کینسر کے علاج کے لیے ادویات کم لاگت اور آسانی سے بنائی جا سکیں گی۔

انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیری گرِفن نے بی بی سی کو بتایا کہ آج کل تیار ہونے والی زیادہ تر اویات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت مہنگی ہیں۔

’جینیاتی طریقے استعمال میں لاکر مرغیوں کے ذریعے کارآمد پروٹین حاصل کرنے کے پیچھے کارفرما سوچ یہ تھی کہ کوئی ایسا طریقہ نکالا جائے جس کے ذریعے مطلوبہ پروٹین بڑی مقدار میں حاصل کی جا سکے۔ ایسی مرغیوں سے یہ پروٹین بہت ہی کم لاگت سے حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ یہاں صحیح معنوں میں بنیادی خرچہ ان مرغیوں کی خوراک ہی ہے۔‘

روسلن انسٹی ٹیوٹ میں جینیاتی طریقوں سے ترقی دادہ پانچ سو مرغیاں تیار کی گئی ہیں۔ ان مرغیوں کی تیاری پندرہ سالوں پر محیط اس سائنسی منصوبے کا نتیجہ ہے جسے ڈاکٹر ہیلن سانگ کی سربراہی میں تکمیل کو پہنچایا گیا۔

روسلن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس پروٹین کے مریضوں پر تجرباتی استعمال کا آغاز پانچ سال تک ہو سکتا ہے جبکہ ادویات کی صورت میں اس کے ثمر کے لیے مزید دس سال درکار ہوں گے۔

شوگر کے مریضوں میں استعمال ہونے والے انسولین کی طرح کی تھیراپوٹک پروٹین ایک لمبے عرصے سے بیکٹیریا میں تیار کی جا رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف پیچیدہ نوعیت کی چند دیگر پروٹین بڑے جانوروں کے نسبتاً حساس سیلوں میں تیار کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے جینیاتی طریقوں سے ترقی دادہ بھیڑوں، بکریوں، گائیوں اور خرگوشوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔

روسلن انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے کام سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب مرغیوں کو بھی بائیو فیکٹری کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

روسلن انسٹی ٹیوٹ میں تیار کردہ کئی مرغیوں کی جینیاتی ساخت ایسی رکھی گئی ہے کہ ان کے ذریعے جلد کے کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی ایٹی باڈی ایم آئی آر 24 حاصل کی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر سانگ کے مطابق ٹیم کو مرغیوں کی پیداواری صلاحیت سے بہت حوصلہ ملا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔

جسم میں موٹاپا بڑھانے والے خلیے

ایک نئی سائنسی تحقیق کے مطابق ڈائٹِنگ کے ذریعے انسانوں کے جسم میں موٹاپا بڑھانے والے خلیے کم نہیں ہوتے ہیں۔
سویڈن میں واقع کیرولِنسکا انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موٹاپا بڑھانے والے خلیوں کی تعداد بلوغت کے دوران طے پاتی ہے جو کہ بعد میں بھی تبدیل نہیں ہوتی ہے۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے ایسے لوگوں پر تحقیق کی جن کا وزن کافی کم ہوگیا تھا لیکن خلیوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔

اس تحقیق کے مطابق اگر کوئی شخص موٹاپا کم کرنے کے لیے ڈائٹنگ کرے تب بھی ایسے خلیوں کی تعداد کم نہیں ہوگی۔

تاہم برطانیہ میں ایک ماہر صحت نے کہا ہے کہ تندرست رہنے کے لیے کھانا اور ورزش کرنا ضروری ہیں۔

حالیہ برسوں میں مغربی ملکوں میں سائنسدانوں نے موٹاپے کے حل کی تلاش میں بہت تحقیق کی ہے۔ اس دوران اڈیپوکائٹ نامی ایک خلیے پر توجہ دی گئی جو کہ ہماری کمر اور پیٹ کے موٹاپے کی وجہ ہے۔

تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ جیسے جیسے ہم موٹا ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اڈیپوکائٹ نامی خلیہ بھی وسیع ہوتا جاتا ہے۔ لیکن سائنسدان اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے کہ موٹاپے کی وجہ صرف اسی خلیے کی وجہ سے ہے یا ساتھ ہی اس خلیہ کی تعداد میں بھی تبدیلی آتی ہے۔

لیکن اگر اس خلیے کی تعداد میں بھی تبدیلی آتی ہے تو شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ وزن گھٹانے سے اڈیپوکائٹ کی تعداد میں کمی کی جاسکتی ہے۔

برطانیہ میں یونیورسٹی آف لیورپُل کے ڈاکٹر پال ٹریہرن نے کہا کہ موٹاپا کے بارے میں اس تحقیق سے ایک بنیاد فراہم ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اچھا ہوگا اگر ہم ان خلیوں کی تعداد گھٹاکر موٹاپا کم کرسکیں لیکن اس کوشش میں اور بھی طریقِ کار ہیں، جیسے ڈائٹنگ اور ورزش۔

ان اللہ لا یستحی من الحق ( بے شک اللہ شرم نہیں جائز کرتا حق بات کہنے میں)

آج کل کے وقت میں  بےحیائی عریانی عام ہونے کی وجہ سے مرد اور عورت دونوں کی صحت بے انتہا متاثر ہوئی ہے  اور کیوں نا ہو  جب ہم اپنے رب کے بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورضی اتنی بری طرح کریں گے کہ ہمیں کسی چیز کا ہوش باقی نا رہے تو صحت تو ایک طرف آخرت بھی برباد ہوتی جائے گی  اور سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ جس چیز میں ہم اللہ پاک کی حدودوں سے انحراف کریں گے تو انہی چیزوں میں اللہ پاک ہماری گرفت فرماتے چلے جایئنگے اور یہ عذاب الٰہی کی قسم ہی ہے

میرا مافی ضمیر پورا ہوا۔  عرض ہے  کہ اگر کوئی صاحب کسی  جنسی بیماری کے مسئلے میں مبتلا ہو تو گھبرائے کی بجائے ٹھیک ہونے کے لیئے پہلی فرصت میں دیواروں پر لکھے ہوئے بے ہودہ جملے ، جعلی اور انپڑھ حکیموں اور ہومیو فزیشنز سے بچنے کی پوری طرح کوشش کریں اور اپنے ذہن کو اللہ پاک کی یاد سے منور کریں  دراصل ایسے افراد شرم کی وجہ سے اپنے ان مسائل کو چھپاتے ہیں جبکہ اسلام اس کو   کرنے کی اجازت دیتا   لہٰذہ فورا مجھےای میل کریں ۔

نسخہ برائے سفوف ہاضم

نسخہ برائے  ہاضمہ
نسخہ الشفاء : دھنیا خشک 10 گرام، تخم الائچی خورد 10 گرام، تخم الائچی کلاں 10 گر ا م، سونف 10 گرام، پودینہ 10 گرام، اجوا ئن  10 گرام، پپیتہ خشک تازہ پپیتہ لے کر چھو ٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیں اور دھوپ میں خشک کر لیں 50 گرام،  فلفل دراز 6 گر ام، ست لیموں 6 گرام، زیرہ سفید 6 گرام، امچور 6 گرام
تمام اشیا کو اچھی طرح صاف کر کے پیس لیں ( اگر قبض رہتی ہو تو موٹا پیسیں اور اگر نا رہتی ہو تو باریک پیسیں )
خوراک: 1 سے 2 گرام ( یا چھوٹا چائے کا چمچ آدھا کھانہ کھانے کے بعد استعمال کر لیں )، 2 ماہ کھائیں اور اس کے بعد جب کبھی ضرورت محسوس ہو تو اسستعمال کر سکتے ہیں۔
پرہیز: تمام تلی ہوئی چیزیں ، بازاری، معدہ میں بوجھ ڈالنے والی اور زیادہ گھی سے پرہیز فرمائیں۔

دوا خود بنا لیں یاں ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں
میں نیت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناضر جان کر مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کو بلکل ٹھیک نسخے بتاتا ہوں ان میں کچھ کمی نہیں رکھتا یہ تمام نسخے میرے اپنے آزمودہ ہوتے ہیں آپ کی دُعاؤں کا طلب گار حکیم محمد عرفان
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

Read More

نیند یا کم خوابی کی وجہ جینز

آپ کے سونے یا جاگنے کی صلاحیت کی وجہ آپ کے جینز ہو سکتے ہیں۔
نئی تحقیق سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا آپ کے سویرے اٹھنے یا رات تک جاگنے کی کیفیت کا پتہ آپ کے جینیاتی ورثے سے لگایا جا سکتا ہے یا نہیں۔

نئی تحقیق میں یہ جاننے کے عمل کو آسان بنایا جا رہا ہے اور اس جینیاتی رحجان کی تشخیص اب خون کے ٹیسٹ سے نہیں بلکہ محض ’ماؤتھ سواب‘ یعنی تھوک کے نمونے سے ممکن ہو سکے گا۔

جسم میں سونے اور جاگنے کے اوقات ’سرکیڈئین رِدھم‘ کہلاتے ہیں۔ اس ٹیسٹ میں ان جینز کی تشخیص ہو جاتی ہے جو ’سرکیڈئن رِدھم‘ کو متاثر کرتے ہیں۔

سِرکیڈئین رِدھم پر کئی مختلف جینز اثر انداز ہوتی ہیں اور ان سے پیدا ہونے والے’ رِبو نُکلئیک ایسِڈ‘ یعنی ’آر این اے‘ کے مقدار سے انفرادی سرکیڈئین ردھم بنتے ہیں۔ آر این اے کی پیداوار کی وجہ سے سے انسان کے مختلف اوقات پر سستی یا عدم سستی محسوس ہوتی ہے۔

مثلاً ’پیر ٹو‘ نامی ایک جین صبح کے چار بجے سب سے زیادہ آر این اے پیدا کرتی ہے اور اس جین کا نیند سے گہرا تعلق ہے۔

’آر ای وی ای آر بی‘ (REV-ERB) نامی ایک اور جین سہ پہر کے چار بجے سب سے زیادہ آر این اے پیدا کرتی ہے اور خیال ہے کہ اس کا تعلق جاگنے سے ہے۔

برطانیہ کے شہر چیلٹنھم میں پچھلے ہفتے ہونے والے ایک سائنسی میلے میں اس جین پر تحقیق کی گئی۔ میلے پر ہونے والے ایک خطاب سے پہلے اور بعد میں کئی افراد کے تھوک کے نمونے لیے گئے اور ان میں ان جینز کا پتہ لگا کر دیکھا جائے گا کہ ان افراد میں سستی کی کیفیت کیا رہی۔

سوانزی یونیورسٹی کی محقق سارا فوربز رابرٹسن نے بتایا ہے کہ اگر کسی شخص میں سہ پہر چار بجے سے پہلے REV-ERB کی مقدار زیادہ ہو تو ان کے سویرے اٹھنے والے شخص ہونے کے امکانات کافی ہیں۔لیکن اگر کسی میں سہ پہر چار بجے کے بعد اس کی مقدار زیادہ ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ وہ ایسے شخص ہونگے جو رات دیر تک آسانی سے جاگتے ہوں۔

لوگوں میں سونے جاگنے کے مختلف اوقات کے رحجان سے اکثر شادی شدہ جوڑوں میں اختلافات پیدا ہو تے ہیں کیونکہ ایک شخص صبح سویرے اٹھ سکتا ہے جبکہ دوسرا رات دیر تک جاگنا پسند کرتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس نئے ٹیسٹ سے اب نہ صرف لوگوں کے اس رحجان کا پتہ چل سکے گا بلکہ اس سے جینز مختلف اشیا کے اثرات کے پتہ چلانے میں بھی مدد ملے گی۔

مثلاً ’جیٹ لیگ‘ یعنی جہاز کے لمبے سفر کے بعد تھکن کے لیے دی جانے والی ادویات کا ان جینز پر اثر کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ محقق سارا فاربز رابرٹسن کہتی ہیں کہ جیٹ لیگ جینز کے رویے پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، اور ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کھانے سے بھی اس پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘

ذیابیطس کا علاج

ذیابیطس کا علاج
صرف متوازن غذا اور ورزش
سے ہی ممکن نہیں ہےامریکہ میں ذیابیطس پر کنٹرول کر نے سے متعلق ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ چینی اور چکنائی کے استعمال سے خون میں شکر کی مقدار بڑھ سکتی ہے جس سے دل پر حملے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ جبکہ متوازن خوراک کے ذریعے خون میں شکر کی سطح کم کی جاسکتی ہے۔
ذیابیطس کی دوا استعمال کرنے کے باوجود بیریڈو کے خون میں شکر کی مقدار زیادہ تھی۔چنانچہ وہ اس بارے میں کیے جانے والے قومی سطح کے ایک مطالعاتی پروگرام میں شامل ہوگئے۔ ڈاکٹر جیمز فلی سٹا ،فونکس کے ایک میڈیکل سینٹر میں اس تحقیق پر کام کررہے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کم کرنے کے لیے شوگر کے بعض مریضوں کو اضافی دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان مریضوں کے علاج کی خاطر ضروری تھا کہ ان کےکچن سے بہت سی چیزیں باہر پھینک دی جائیں۔

بیریڈو باقاعدگی سے ذیابیطس کی دوائیں کھاتے ہیں اور اس باقاعدگی کی وجہ وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کا انتقال 50 سال کی عمر میں ہوا۔ میرا بھائی 49 سال میں چل بسا اور میری عمر 60 سال ہے۔ میں مزید زندہ رہنا چاہتا ہوں۔میں مرنا نہیں چاہتا۔

ڈیوک یونیورسٹی کے ایک طبی ماہر ڈاکٹر ایرک ویسٹ مین کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں فکر مند ہیں کہ امریکہ میں خون میں شکر کی صحت مند مقدار کی اب پروا نہیں کی جارہی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ٹائپ ٹو دیابیطس کو نارمل رکھنا چاہتے ہیں تو خون میں گلوکوز کی مقدارکو سختی سے قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوا کی زیادہ مقدار خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر ویسٹ مین کا کہنا ہے کہ ہمیں خوراک پر زیادہ تحقیق کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر میری ورنن کا، جو ذیابیطس پر ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہے ، کہنا ہے کہ امریکن ڈیبے ٹیز ایسوسی ایشن نے کاربوہائیڈ ریٹ کی بہت زیادہ مقدار کی سفارش کی ہے۔ ایشن کا کہنا ہے کہ آپ کے جسم کو درکار کیلوریز کا پچاس سے ساٹھ فی صد کاربوہائیڈ ریٹس سے حاصل ہونا چائیے۔

ڈاکٹر ویسٹ مین اور ڈاکٹر ورنن یہ سفارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی کیلوریز کا صرف دس فی صد چینی سے حاصل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ سبز پتوں والی چیزیں اور بہت سی چکنائی استعمال کریں۔ جس سے آپ کو بلڈشوگر کم کرنے کی دواؤں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مگر چکنائی کے زیادہ استعمال پراکثر ڈاکٹروں کو اعتراض ہے۔

چاہے مریض جسم کو درکار کیلوریز کے لیے دس فی صد کاربوہائیڈ ریٹس استعمال کریں یا 50 فی صد،مگر ذیابیطس پر مطالعاتی پروگرام سے وابستہ ڈاکٹر فلی سٹا کا کہنا ہے کہ شوگر کے زیادہ تر مریض صرف خوراک پر انحصار نہیں کرسکتے۔

میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر جو ورزش اور خوراک کے ذریعے ذیابیطس کا علاج پر یقین رکھتے ہیں ، ان کے مریضوں میں سے اکثر کا بلڈشوگر کنٹرول میں نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر ورنن کا کہنا ہے کہ شوگر کے مریضوں کو کم کاربوہائیڈریٹس والی خوراک پرسختی سے عمل کرنا چاہیے۔