Al-Shifa Naturla Herbal Laboratories (Pvt), Ltd.    HelpLine: +92-30-40-50-60-70

نیند سے بیداری پر پہلے ہاتھوں کی صفائی

نیند سے بیداری پر پہلے ہاتھوں کی صفائی
حکم ہے کہ جب کوئی شخص سو کر اٹھے تو جب تک تین بار ہاتھ نہ دھو لے اس کو کسی پانی کے برتن میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہئیے کیونکہ سوتے وقت نا معلوم اس کا ہاتھ کہاں کہاں پڑا ہو گا۔نیند سے بیدار ہونے پر ہاتھوں کی صفائی یعنی (دھونا) نہایت معقول اور سائنٹیفک حکم ہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس طرح غیر مطہر ہاتھ یا ہاتھ کی انگلیاں اگر صاف پانی میں ڈبو دی جائیں تو یقیناً اس کو ملوث یا نجس کر دیں گی۔ اس لئے تاکید فرمائی گئی۔ اس ہدایت سے معلوم ہوا کہ اسلامی تعلیمات میں ہر ہر عضو کی پاکیزگی کا کتنا اہتمام کیا گیا ہے اور امراض کے نہ صرف ایک دوسرے سے لگنے بلکہ خود اپنے دبن کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ میں منتقل ہونے کے امکانات کو ان کے اپنے ابتدائی مرحلوں میں ہی نہایت موثر طریقہ سے بے اثر کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہیں صحت کو متاثر کرنے والی اور روز مرہ کام آنے والی احتیاطیں جن کے صرف نظر کرنے پر صحت کے متاثر ہو جانے کے قوی امکانات ضرور موجود رہتے ہیں۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی بھی سنت رہی ہے یہ مقامات ایسے ہیں جن کی صحت و صفائی طبی نقطہ نظر سے ضروری ہیں اور جس کو دین فطرہ نے بھی رموز فطرات قرار دیا ہے احادیث مبارکہ کی روشنی میں کم و بیش (دس) امور فطرت معلوم ہوتے ہیں۔ (بخاری و مسلم شریف)

جسم کی صفائی اور میڈیکل سائنس

جسم کی صفائی اور میڈیکل سائنس

یہ امر تحقیق شدہ ہے کہ تمام امراض کی اصل وجہ “جراثیم“ (وہ خوردبینی اجسام) ہیں جو حجم میں ایک ملی میٹر کے ہزارویں حص سے بھی کم ہوتے ہیں اور جو مختلف حیوانی یا نباتاتی اجسام سے اپنا تغذیہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں کیمیاوی تبدیلیوں کی وجہ جراثیمی سمیت پیدا ہوتی ہے جو نہایت مضر بلکہ خطرناک امراض پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ (بحوالہ علم الجراثیم)

جراثیم میلی کچیلی جگہوں پر مختلف طریقوں سے پیدا ہوتے ہیں یہ کثافت و غلاظت میں نشوونما پاتے ہیں اور طرح طرح کی خطرناک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔

طہارت و صفائی کی اہمیت

طہارت و صفائی کی اہمیت
بیمار جسم میں نہ صحت مند دماغ رہ سکتا ہے اور نہ صحیح روح کام کرتی ہے۔ اس لئے کہ جسم کی صفائی سے دل و دماغ میں بلند خیالات اور پاکیزہ تصورات جنم لیتے ہیں دل بھی اچھے اور نیک کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے اور عبادت تلاوت کی طرف رجوع ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس دور کے تمدن کا اصل اصول صفائی ہے مگر اس اہمیت کے جاننے کے باوجود جدید طرز تمدن میں جسمانی طہارت کا کوئی ضابطہ عمل مقرر نہیں ہے اور نہ خیالات فاسد کی اصلاح کیلئے کوئی اصول مدون ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ صحت خوبصورتی ہے اور خوبصورتی بھی خوب صحت کی آئینہ دار ہے اس میں شک نہیں ہے کہ ایک صحت مند آدمی کی وجاہت بیمار کے مقابلہ میں بہتر ہوتی ہے اور یہ بات حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی
اسلامی عقائد میں جو اہمیت توحید کی ہے وہی حیثیت عبادت میں “طہارت“ کی ہے جیسے توحید کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہو سکتا، ویسے ہی طہارت کے بغیر کوئی عبادت قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ غرض جس طرح ہم توحید کو مذہبی اعتقادات کا اصل الاصول سمجھتے ہیں اسی طرح طہارت پر اپنی عبادت کا دارو مدار مانتے ہیں۔ اس لئے تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ النظافۃ من شعبۃ الایمان (ترجمہ) نظافت و پاکی ایمان کا ایک اہم شعبہ (ٹکڑا حصہ) ہے۔

مذید فرمایا اے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ پوری طہارت کیا کرو تاکہ تمہاری عمر دراز ہو۔ (کیمیائے سعادت) گویا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے درازی عمر کیلئے طہارت و صفائی کو لازم قرار دیا اور ہمیشہ باوضو رہنے کو سراہا گیا۔ (ترمذی شر یف) اب دیکھنا یہ ہے کہ طہارت ہے کیا ؟ اور اسلام نے اس کے متعلق کیا احکامات دئیے ہیں۔ عام طور پر طہارت کے معنی پاکیزگی یا صفائی کے ہیں لیکن علامہ غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے لکھا ہے کہ اسلامی طہارت میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کی پاکی شام ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں ظاہری صفائی یہ ہے کہ جسم کسی قسم کی نجاست سے آلودہ نہ ہو باالفاظ دیگر جسم ہر قسم کی نجاست سے چاہے وہ حقیقی ہو (جو بظاہر نظر آئے جیسے بول و براز وغیرہ یا حکمی ہو (جو نظر نہ آئے) جیسے (حدث ہوا کا اخراج) ان تمام کو دور کرنے کا نام طہارت ہے۔ اسی طرح جسم کے علاوہ لباس اور مقام عبادت وغیرہ کی ہر قسم کی نجاست سے پاک ہونا شرط عبادت ہے۔ یعنی ایسی طہارت کے بغیر عبادت ناقص اور ناقابل قبول ہے، طہارت باطنی کا زیاہ تعلق چونکہ دل سے ہے اس لئے ارشاد ہے کہ بے شک اللہ تعالٰی تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے صورتوں کو نہیں دیکھتا، یہ کہ خیالات کو فاسد عقائد سے پاک کیا جائے اور دل کو کفر و شرک ریا، بغض و کینہ اور حسد جیسی نجاستوں سے پاک کیا جائے اسلام نے دل کی طہارت کے ساتھ جسم اور لباس کی صفائی و پاکیزگی پر بہت زور دیا ہے اور ان دونوں کو پاک و صاف رکھنے کی تاکید فرمائی ہے حتٰی کہ جسم اور لباس کی صفائی کو داخل عبادت قرار دیا ہے
ہر قسم کی تمام جڑی بوٹیاں صاف ستھری تنکے، مٹی، کنکر، کے بغیر پاکستان اور پوری دنیا میں ھوم ڈلیوری کیلئے دستیاب ہیں تفصیلات کیلئے کلک کریں
فری مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں

Helpline & Whatsapp Number +92-30-40-50-60-70

Desi herbal, Desi nuskha,Desi totkay,jari botion se ilaj,Al shifa,herbal

 

 

تربوز سے پیٹ کی گرمی کا علاج

تربوز سے پیٹ کی گرمی کا علاج
تربوز کا ہر حصہ مدربول ہے۔ پیٹ سے جلن اور سوزش کو رفع کرتا ہے۔ خون کی تیزی اور صفرا کو تسکین دیتا ہے۔ اس کا جوس پیاس کو بجھاتا ہے اور تپ محرقہ میں مفید ہے۔ اس میں غذائی عناصر کی مقدار اسے جسم کے لئے مقوی بلکہ وزن کو بڑھانے والا بنا دیتی ہے اور معدے میں غلاظت کو نکال کر پیٹ کو صاف کرتا ہے۔
تربوز کا استعمال پتھری میں مفید ہےتربوز پیشاب آور ہونے کی وجہ سے گردہ اور مثانہ کی پتھری کو نکالتا ہے، نیز سوزش بول اور سوازک میں بھی پلایا جاتا ہے۔ اس کے جوس میں کھانڈ اور زیرہ ملا کر گردہ و مثانہ کی پتھری اور پیشاب او پیشاب کی نالی کی سوزشوں میں مفید ہے۔تربوز معدہ اور آنتوں کے زخم مندمل کرتا ہےتربوز کھانے سے معدہ اور آنتوں کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں۔ اس میں بہی کی طرح Pectin کی موجودگی اسے اسہال اور پیچش میں بھی مفید بنا دیتی ہے۔ سندھ میں پایا جانے والا جنگلی تربوز کڑوا ہوتا ہے مگر وہ بھوک بڑھاتا ہے اور قبض میں مفید ہے۔ تربوز کے گودہ میں مواد لحمیہ، شحمیہ، معدنی مواد شکر و نشاستہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تربوز میں پکٹین کافی مقدار میں ہوتی ہے۔

تربوز کے بیج کے افعال

مذکورہ افعال کی طرح تخم تربوز کو لاغری، جسم، لاغری گردہ، جوش خون، زیادتی صفراء، شدت عطس، سوزش معدہ، نفث الدم، حمیات حارہ میں زیادہ تر شیرہ نکال کر ہلایا جاتا ہے۔ مرد، مرطب ہونے کے باعث پیوست دماغ اور سل دق میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مدر بول ہونے کے باعث سوزش بول، سوازک اور عسر البول جو کہ گرمی خشکی کی وجہ سے ہو میں استعمال کیا جاتا ہے

تربوز

تربوز
تربوز دنیا کے اکثر گرم ملکوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ مشرق وسطٰی کے ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ ہندو پاکستان میں بھی عام ملتا ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا کا تربوز اپنی سرخی اور حلاوت میں مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ رتیلے علاقوں کا تربوز اپنی سرخی اور حلاوت میں مشہور ہے۔ تربوز کی عمدگی اس کے گودے کی سرخی اور مٹھاس پر قرار دی جاتی ہے۔ ملاوٹ کے اس دور میں دیکھا گیا ہے کہ پھل فروش سرخ رنگ میں سکرین ملا کر تربوزوں میں انجکشن لگا کر ان کو مصنوعی طور پر سرخ اور میٹھا کر لیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ افریقہ کا پھل ہے جو سیاحوں کی بدولت دنیا بھر میں مقبول ہو گیا۔ آج کل پاکستان میں چین کے درآمدی بیج سے چھوٹے حجم کے ایسے تربوز کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں جو لذیذ بھی ہیں۔ پھل وزنی ہونے کی وجہ سے اس کا پودا زمین پر رینگنے والا ہے۔ بیج بونے سے چار ماہ میں پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے۔ پکے ہوئے پھل کی پہچان میں کہا جاتا ہے کہ اگر اس پر ہاتھ ماریں تو جواب میں مدھم آواز عمدگی کی علامت ہے۔
محدثین کی اکثریت تربوز کے بارے میں صرف ایک حدیث کو ثقہ قرار دیتی ہے۔
حضرت سہیل بن سعد سے روایت ہے کہ تاجدار مدینہ تازہ پکی ہوئی کھجوروں کے ساتھ تربوز کھایا کرتے تھے۔
اس حدیث کے الفاظ میں سنن ابی داؤد میں یہ اضافہ ملتا ہے۔
اور فرمایا کہ اس کی گرمی اس کی ٹھنڈک مار دیتی ہے اور اس کی ٹھنڈک کو اس کی گرمی مار دیتی ہے۔ مذید فرمایا کہ تربوز کھانا بھی ہے اور مشروب بھی یہ مثانہ کو دھو کر صاف کر دیتا ہے اور باہ میں اضافہ اور چہرے کو نکھارتا ہے۔ (ذہبی، مسند فردوس)
اکثر محدثین نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم کو پھلوں میں انگور اور تربوز بہت پسند تھے اور وہ انہیں شوق سے کھاتے ہیں

احادیث میں گوشت کی اہمیت

احادیث میں گوشت کی اہمیت
حضرت ابو الدرداء روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” نے فرمایا۔ “دنیا اور جنت کے رہنے والوں کے کھانے کا سردار گوشت ہے۔“ (ابن ماجہ شریف)حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” کی خدمت میں گوشت آیا۔ وہ دستی کا تھا کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم” کو پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم” اس میں سے دانتوں کے نوچ کر تناول فرما رہے تھے۔
(ابن ماجہ۔ ترمذی شریف)گوشت کے بارے میں رسول اللہ کے ارشاادات گرامی کا خلاصہ کریں تو ان کو بکرے کا گوشت اور پائے پسند تھے۔ اس میں سے بھی وہ دستی اور شانہ زیادہ پسند کرتے تھے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں پر ریشے موٹے نہیں ہوتے اور گوشت جلد گلتا اور ملائم ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کی پسند پشت کا گوشت تھا جس کا ریشہ ان سے کم موٹا مگر اس میں خون پیدا کرنے والے اجزاء ملتے ہیں۔ انہوں نے شکار کے جانور اور پرندے زیادہ پسند فرمائے کیونکہ قرآن مجید نے پرندوں کے گوشت کو بہترین گوشت قرار دیا ہے۔ آج کل بھی پرندوں کے گوشت کو سفید گوشت کے نام سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مرغ شوق سے کھایا لیکن گائے کے گوشت کو بیماریوں کا باعث قرار دیا ہے۔

 

Read More

گوشت خریدتے وقت توجہ طلب امور

گوشت خریدتے وقت توجہ طلب امور
گوشت کا رنگ نہ تو زردی مائل سرخی پر ہو اور نہ ہی بینگن کی طرح کا ہو یعنی بینگنی نہ ہو کیونکہ پرپل بینگنی رنگ کا مطلب یہ ہے کہ جانور کو ذبح نہ کیا گیا تھا۔
گوشت کی شکل و صورت اور ہئیت اس طرح ہو کہ جیسے کوئی مرصع فرش اصطلاحاً اس شکل کو ماربل اپیرنس کہتے ہیں۔
گوشت کو جب ہاتھ لگایا جائے تو اس میں مضطوبی اور لچک محسوس ہو۔ انگلی نہ تو اندر دھنسے اور نہ ہی پلپلا محسوس ہو اور انگلی کو گیلا نہ کرے۔
گوشت کو جب انگلی سے دبایا جائے تو اس کے اندر ہوا کی موجودگی محسوس نہ ہو۔
گوشت سے کسی قسم کی کوئی خوشبو یا بدبو نہ نکل رہی ہو۔
پکانے سے گوشت زیادہ نہ سکڑے۔
گوشت اگر تھوڑی دیر پڑا رہے تو پانی نہ چھوڑے بلکہ پڑا رہنے پر وہ مذید خشک ہو جائے اور اس کے اوپر بالائی سطح خشک ہو جائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو گوشت خراب ہے۔
جب گوشت پانی چھوڑے۔ رنگت زردی مائل ہو جائے اور سبزی مائل ہو کر اس میں یوں تری آ جائے جیسے خمیرے آٹے میں ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ گوشت خراب ہو گیا۔
کھلی ہوا میں دو تین گھنٹے پڑا رہنے پر گوشت خراب نہیں ہوتا۔ اگر اس پر پورا دن گزر جائے تو گرم علاقوں میں گوشت میں سڑاند پیدا ہوکر انسانی استعمال کے ناقابل ہو جاتا ہے۔
 

Read More

گوشت کی پہچان

گوشت کی پہچان
چونکہ گوشت ایک مکمل غذا ہے، اس لئے جب کوئی اسے مسلسل ترک کر دے تو اس کو لحمیات کی کمی ہوتی ہے اور سبزیوں میں موجود کم غذائی عناصر سے مطلوبات حاصل کرنے کی کوشش میں آنتوں کا حجم بڑھ جاتا ہے اور پیٹ بڑا ہو جاتا ہے۔گوشت کی  پہچان : گائے ۔ بیل
گوشت کا رنگ: سرخ
چربی کا رنگ: زرد اور خشک
گوشت کی پہچان: بکری
گوشت کا رنگ: ہلکا سرخ
چربی کا رنگ: سفیدگوشت کی پہچان: بھیڑ ۔ دنبہ
گوشت کا رنگ: ہلکا سرخ
چربی کا رنگ: سفید۔ دنبہ کے گوشت کے اندر بھی چربی کے ریشے ملتے ہیں۔

گوشت کی پہچان: بھینس
گوشت کا رنگ: گہرا سرخ
چربی کا رنگ: سفید

گوشت کی پہچان: اونٹ
گوشت کا رنگ: سرخ
چربی کا رنگ: ہلکا زرد

گوشت کی پہچان: گھوڑا
گوشت کا رنگ: گہرا سرخ
چربی کا رنگ: سفید مگر زردی مائل

گوشت کی پہچان: وہیل مچھلی
گوشت کا رنگ: نہایت گہرا سرخ
چربی کا رنگ: سیال

گوشت کی پہچان: انسان
گوشت کا رنگ: گلابی
چربی کا رنگ: سنہری زرد

 

Read More

کھیرا ۔ قتاء

کھیرا ۔ قتاء
جو مشہور پھل ہے وہ ایک بالشت یا اس سے کم و بیش لمبا ہوتا ہے اور اس کو ککڑی کے مانند تراش کر کھایا جاتا ہے۔ اطباء ہند کھیرے اور ککڑی کو خیارین کہتے ہیں۔ لغت کی بعض کتابوں میں قتاء سے مراد ککڑی لی گئی جبکہ عرب میں قتاء کا نام کھیرے کے طور پر استعمال ہوتا دیکھا گیا۔احادیث میں کھیرا کا ذکرحضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ کھجوروں کے ساتھ کھیرے کھا رہے تھے۔ (بخاری۔ مسلم۔ ابن ماجہ۔ ترمذی)

تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو کھوجر کے ساتھ کھیرا کھاتے دیکھنے کا مشاہدہ صحابی نے بیان کیا۔ اب اس مرکب کا فائدہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زبان مبارک سے جا سنئے۔ “میری والدہ چاہتی تھیں کہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤں تو موٹی ہو کر جاؤں۔ (کیونکہ عرب موٹی عورتوں کو پسند کرتے تھے۔) اس غرض کے لئے متعدد دوائیں دی گئیں مگر فائدہ نہ ہوا پھر میں نے گھیرا اور کھجور کھائے اور خوب موٹی ہو گئی۔“ (بخاری ۔ مسلم۔ ابن ماجہ۔ نسائی)

کھیرا اور پیٹ کی سوزش

کھیرا کھانے سے معدہ اور آنتوں کی سوزش ختم ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اسے آتش حدت کو بجھانے والا قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثانہ کی سوزش اور جلن اور پیشاب کی جلن کو دور کرتا ہے۔ پیشاب آور ہے۔ گرمی کے دستوں کو فائدہ دیتا ہے۔

صفراوی امراض اور یرقان میں نافع

کھیرے کا ایک پاؤ پانی نکال کر اس میں تین تولہ مصری ملا کر پینے سے معدہ اور آنتوں کے تمام صفراوی مادے نکل جاتے ہیں۔ یرقان کو نفع دیتا ہے اور حیض اور پیشاب لاتا ہے۔ کھیرے کے بیج پیشاب آور ہونے کے ساتھ نالی کی جلن کو دور کرتے ہیں۔ ورم جگر اور تلی تحلیل کرتے ہیں۔ کھیرا، ککڑی، خربوزہ اور کدو کے بیج میں سے ہر ایک کو اونس بھر لے کر ان کے ساتھ تخم کانسی دو اونس کھانڈ 10 اونس اور پانی ایک پونڈ ملا کر خوب پکائیں۔ پھر چھان کر ان کا قوام بنائیں اور سرکہ شامل کرکے شربت بنالیں۔ اس شربت میں ایک گھونٹ پانی ملا کر دن میں تین چار مرتبہ پیشاب کی جلن اور گرم بخاروں میں مفید ہے۔ اکثر اطباء کا خیال ہے کہ اس میں ٹھنڈک کی زیادتی بعض جسموں کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اس کو متعدل بنانے کیلئے کوئی گرم چیز دینی مناسب رہتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ کھجور کھاتے تھے۔ اگر کھجور میسر نہ ہو تو اصلاح کے لئے منفی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بعض محدثین کھیرے کو شہد کے ساتھ کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کھیرا امراض کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

پتھری اور اعصابی کمزوری کا علاج

کھیرا میں ایک جوہر Pepsin پایا جاتا ہے جو غذا کو ہضم کرتا ہے اور پیشاب آور ہے۔ پھل میں حیاتین ب اور ج کی قسم پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے اعصابی کمزوری میں مفید ہے اور امراض کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لحمیات کو ہضم کرنے والا جوہر از قسم Oxidase Succinic and Malic پائے جاتے ہیں جو جسم کے اندر متعدد عوامل کے فعل کو کار آمد ہیں۔

کھیرے کے رس کو زیتون کے تل میں ملا کر اتنا پکائیں کہ صرف تین رہ جائے۔ یہ تیل مثانہ کی پتھری نکالنے کے لئے پلایا جاتا ہے اور اعصابی کمزوری میں اس کی مالش مفید بتائی جاتی ہے۔

 

Read More

چغلی اور حسد سے دل کے امراض

چغلی اور حسد سے دل کے امراض
جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ گناہ کرنے سے پریشانی، تذبذب اور نفسیاتی امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔ دراصل گناہ سے خون میں ہسٹامین کی زیادتی ہو جاتی ہے جن سے برین سیل بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور انسان بے شمار مہلک امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بعض گناہوں کی نحوست کے اثرات ذہنی بیماریوں کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور بعض کے جسمانی بیماریوں کی صورت میں اور بعض گناہوں کی نحوست سے جسم میں درد، تھکان اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔ جسم کے عضلات کھینچے جاتے ہیں۔ دماغ بوجھل بوجھل اور ہاتھ پاؤں میں کمزوری آ جاتی ہے۔ گناہوں کی وجہ سے خوف، گھبراہٹ، مایوسی، چڑچڑاپن اور وحشت ناک خواب وغیرہ آنے لگتے ہیں۔ ہاضمہ خراب اور نیند کم آتی ہے۔ پڑھنے لکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ نیز اعصابی اور جنسی کمزوری آ گھیرتی ہے۔ پھر ڈاکٹروں اور حکیموں کے چکروں میں پھنس کر جیب کا صفایا بھی ہو جاتا ہے۔
چغلی اور حسد کرنے سے دل کی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے۔ دل کی کمزوری جسم کے دوسرے اعضاء پر اثر انداز ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گناہ سے انسان میں حوصلہ اور ہمت کم ہو جاتی ہے۔ ناامیدی اور بزدلی آ جاتی ہے۔ لیکن گناہ سے بچنے والے نیک لوگوں کا دل مضبوط ہوتا ہے اس میں بے پناہ ہمت اور حوصلہ ہوتا ہے ان کے عزم پتھر کی چٹانوں کی طرح ہوتے ہیں لیکن ان میں قوت ایمانی اور گناہوں سے بچنے کے سبب اتنی دلیری اور حوصلہ تھا کہ انہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کے تختے الٹ دئیے۔ بڑے بڑے جابر حاکموں کے سامنے کلمہ حق سنایا۔ ان کی کامیابی کا راز صرف یہی تھا کہ یہ لوگ گناہوں سے بچے اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی زندگی بسر کی۔